عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

عبید اللہ علیم

اذیت مصیبت ملامت بلائیں

ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

خواجہ میر دردؔ

بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں

اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں

اقبال عظیم

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

عرفانؔ صدیقی

ہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں

محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے

کلیم عاجز

ہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

فراق گورکھپوری

بہت دشوار تھی راہ محبت

ہمارا ساتھ دیتے ہم سفر کیا

مہیش چندر نقش

بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت

وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں

افتخار عارف

بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے

وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی

اجیت سنگھ حسرت

کیا وحشت ہم کو تجھ بن کیسا صبر و سکوں

تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

ابن انشا

بے نیاز دہر کر دیتا ہے عشق

بے زروں کو لعل و زر دیتا ہے عشق

ابو الحسنات حقی

بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا

سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے

کلیم عاجز

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 1

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

48 − 43 =